پرندے اس برس کتنے کم نظر آئے ہیں۔ بہار کے رنگ ماند ہوئے تو گرما کی صبحوں کا جادو بھی گویا کہیں کھو گیا ہے۔ انجیر کا پھل گرمی کی شدت سے شاخوں ہی پر ٹھٹھک گیا ہے۔ خوش رنگ سبز خوشوں نے گہرا کاسنی جامہ نہیں اوڑھا، دیس کے نوجوانوں کی طرح خوشی کی ناتمام آرزو میں سبزہ نودمیدہ سے محروم ہوئے اور پھر دیکھنے میں بے رنگ اور بھیتر میں بے رس ہو گئے۔ انگور کی شاخوں میں البتہ خوشی کے شاداب گچھے بدستور آویزاں ہیں۔ مگر تابکے؟ وائے ہے اس زمین پر جہاں شاخ تاک کو سرخوشی کی صراحی کا اذن نہیں۔ گائوں سے آنے والوں نے بتایا ہے کہ اس برس گندم کا دانہ بھی تمازت کی تاب نہ لا کر سکڑ گیا ہے، خیال ہے کہ پیداوار میں دس فیصد کمی ہو گی۔ شاید تیس لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنا پڑے۔ بھائی انتظار حسین حیات ہوتے تو انہوں نے کھلیان میں پڑے دانہ گندم کی رائیگانی کو تلمیح کے لبادے میں لپیٹ کر ہمارا اجتماعی دکھ بیان کیا ہوتا۔ انتظار حسین بھی اپنے رنگ و بو میں ایک ہی دانہ تھا، لاہور کی گلیوں میں اڑتے آنچلوں کی باس اور سڑکوں پر کٹتے پیڑوں کے دکھ سے لے کر تھر کے موروں کی پیاس بیان کرنے والا، جنگ میں جھلسے ہوئے کھیتوں کی بربادی سے سوات کی بچیوں کے جلے ہوئے اسکولوں کا نوحہ لکھنے والا۔ شہر افسوس میں آخری آدمی کے دائمی اندوہ کو لفظوں کی قبا بخشنے والا۔ بڑا درخت گرتا ہے تو دور دور تک زمیں تہ و بالا ہو جاتی ہے۔ انتظار حسین رخصت ہوئے تو اپنے ساتھ زاہد ڈار، مسعود اشعر، شاہد حمید اور آصف فرخی کو بھی لے گئے۔ محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ باز خیال…
قومی سطح پر تمام سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں میں دستور کے تسلسل پر اتفاق رائے ہونا چاہئے۔ یہ جو ہر دوسرے روز کسی عبوری حکومت یا ٹیکنو کریٹ بندوبست کے بارے میں غیر ذمہ دار آوازیں سنائی دیتی ہیں، ذاتی مفاد کے پروردہ ان کاسہ لیسوں کو دو ٹوک انداز میں مسترد کرنا چاہئے۔ دستور نے پارلیمانی جمہوریت کو ملک کا طرز حکومت قرار دیا ہے۔ چنانچہ دستوری تسلسل کا ایک لازمہ پارلیمانی جمہوریت پر وسیع تر اتفاق رائے ہے جس سے وفاق کی اکائیوں میں حقوق کی ضمانت، فیصلہ سازی میں شرکت اور وسائل تک رسائی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ دستوری تسلسل کے بغیر سیاسی استحکام ممکن ہے اور نہ معاشی ترقی کا کوئی امکان ہے۔ ٹیکس کی ثقافت بھی سیاسی استحکام اور حکومت کی عملداری سے جڑی ہے۔ تمام مفروضہ نظریاتی خرخشوں کو رد کر کے معاشی ترقی کو قومی نصب العین قرار دینا چاہئے۔ معیشت کی پیداواری بنیاد وسیع کرنے کے لئے کچھ بنیادی فیصلے ضروری ہیں۔ آبادی میں اضافے کی شرح پر قابو پایا جائے، ضبط تولید کی مخالفت کو جرم قرار دینا چاہئے۔ ملکی وسائل کا زیادہ سے زیادہ حصہ خواندگی بڑھانے اور معیاری تعلیم کی فراہمی پر صرف کرنا چاہئے۔ نصاب تعلیم کو تلقین کی بجائے افادی خطوط پر استوار کیا جائے۔
دستور کی شق 25 میں صنفی مساوات کی ضمانت دی گئی ہے۔ عورت اور مرد میں مساوات کے اصول کو سماجی اور معاشی زندگی میں اپنائے بغیر عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنایا جا سکتا ہے اور نہ امتیاز سے پاک معاشرتی نمونہ تشکیل پا سکتا ہے۔ مساوات کے اصول کو محض صنفی زاویے تک محدود کرنا کافی نہیں۔ سیاسی اور سماجی طور پر یک طرفہ قومی تشخص کو تکثیری شناخت میں بدلنے کے لئے 85 لاکھ اقلیتی شہریوں کو مساوی بنیاد پر سیاسی اور معاشی دھارے میں شریک کرنا لازمی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں بابو شاہی رکاوٹیں ہٹانے سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ جسد اجتماعی سے انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کی بیخ کنی کی جائے۔ معاشرتی اقدار میں قدامت پسندی کی ترجیحی حیثیت ختم کر کے سماجی تنوع کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ نظامِ عدل میں متوازی دھاروں کو ختم کرنے کے علاوہ بیرونی مداخلت ختم کرنا بھی ضروری ہے۔ قانون کے سامنے شہریوں کی برابری ہی کافی نہیں، قانون تک آسان رسائی اور نظامِ عدل پر شہری کے اعتماد کی بحالی بھی ضروری ہے۔
نظامِ عدل کی شفافیت ہی وہ نکتہ ہے جو شہری اور ریاست میں باہم اعتماد کا درجہ متعین کرتا ہے۔ ہم نے مدتوں اپنے ملک میں بیرونی دنیا سے مخاصمت کی آبیاری کی ہے۔ قدرتی وسائل اور داخلی معاشی طاقت سے محروم ملک اس پالیسی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کے ان حصوں سے نجات حاصل کرنی چاہئے جو بدلتے ہوئے حالات میں غیرضروری بلکہ نقصان دہ ہو چکے ہیں۔ شاید آپ کو خیال آئے کہ ملک گہری سیاسی اور معاشی بے یقینی کا شکار ہے اور یہ شخص ہوائی قلعے باندھ رہا ہے۔ بھائی کالم نگار تو ن م راشد کا اندھا کباڑی ہے جس کی تمام جستجو خوابوں کا بیوپار ہے۔ اور وہ نیند میں بھی بڑبڑاتا ہے، ’خواب لے لو خواب، اور لے لو ان کے دام بھی۔‘
