حضرت موسیٰ علیہ اسلام اور ایک گڈریا

حضرت موسیٰ علیہ اسلام اور ایک گڈریا





حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سر راہ ایک گڈریے کو دیکھا جو اس طرح منا جات کر رہا تھا۔ اے میرے پیارے خدا! تجھ پر میری جان تمام فرزند اور گھربار قربان ہوں تو کہاں ہے۔اگر تو مجھے مل جائے تو دلو جان سے تیری خدمت کروں تیرے سر میں کنگھی کروں ’ بالوں سے جوئیں چنوں ’تیرے کپڑے سیؤں ’تیرے جوتے گانٹھوں۔ اگر تجھے کوئی بیماری پیش آئے تواپنو ں کی طرح تیری تیمارداری کروں۔ تیرے ہاتھ چوموں’تیرے پیروں کی مالش کروں’جب سونے کا وقت آئے تیری خواب گاہ کو صاف کروں۔ اگر تیرا گھر دیکھ لوں

تو صبح وشام دونوں وقت گھی اور دودھ تیری خدمت میں پیش کروں صرف یہی نہیں بلکہ !

                                                        ہم پنیرو نان ہائے روغنین

                                                        خمر ہا جغراتہائے نازنین

                                                    سازم و آرم بہ پیشت صبح و شام

                                                        از من آوردن زتو خوردن کلام

ساتھ ہی پنیر ’ رو غنی روٹیاں (پراٹھے) قسم قسم کے مشروبات اور دہی ’ چھاچھ صبح و شام تیرے لیے لایا کروں ’بس میرا کام لانا اور تیرا کام کھانا ہو۔ اے وہ جس پر میری تمام بکریاں فدا ہوں۔ میری سب یہ آہ و دفغاں تیرے دیدار کے لیے ہے۔ وہ گڈریا اس طرح کی باتیں کر رہا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے ٹوکا اور پوچھا کہ ہے شخص تجھے معلوم ہے کہ تو کس سے مخاطب ہے اس نے کہا کہ اس سے جس نے ہم کو پیداکیا اور جسکی قدرت سے یہ زمین اور آسمان پیدا ہوئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔ ارے جاہل تو مسلمان ہونے کی بجائے کافر ہو گیا۔ تویہ کیابے ہودہ بک رہا ہے،اگر خاموش نہیں رہ سکتا تو منہ میں روئی ٹھونس لے تیرے کفر کی گندگی نے سارے جہان میں بدبو پھیلا دی ہے۔تیرے کفر نے تیرے دین کے قیمتی لباس کومعمول کپڑے کی گڈری بنا دیا ہے۔ جوتی جوڑا تو تیرے جیسوں کے لیے ہے۔ آفتاب کو ان کی کیا ضرورت۔ اگر تو یہ بکواس بند نہ کرے گا آسمان سے قہر الہیٰ نازل ہو گااور ساری مخلوق کو ختم ڈاکے گا۔ارے بے وقوف تو اللہ تعا لیٰ کی عظمت کو نہیں جانتا وہ ایسی خدمت گذاری سی بی نیاز ہے۔ ذرا اتنا تو سوچ ایسی باتیں تو کس سے کر رہا ہے۔ کیا چچا ماموں سی باتیں کر رہا ہے۔ بھلا جسم وحاجت اس خدائے ذوالجال کی صفات میں کہاں؟ دودھ تو وہ پیتا ہے جو پلنے بڑھنے والا ہے اور جوتے وہ پہنتا ہے جو پاؤں کا محتاج ہے ، گڈریے نے کہا اے موسیٰؑ آپ نے میرا منہ بند کر دیا اور پشیمانی کی آگ میں میری جان جلا ڈالی۔یہ کہہ کر اس نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور ایک آہ سرد بھر کر جنگل کی طرف بھاگ گیا۔اسی وقت حق تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ ؑ پر وحی آئی کہ اے موسیٰ تو نے میرے بندے کو ہم سے جدا کر دیا!

                                    تو برائے وصل کردن آمدی نے برائیے فصل کردن آمدی

تو دنیا میں بندوں کو خدا سے ملانے کے لیے آیا ہے نہ کہ ان کو دور بھگانے کے لیے آیا ہے جہاں تک ہو سکے جدائی میں قدم نہ رکھ تو جانتا ہے کہ جدائی (طلاق) میرے نزدیک ناپسندیدہ ہے ۔ہم نے ہر شخص کی سیرت جدا بنائی ہے اور ہر شخص کو بات کرنیکی جدا صلاحیت دی ہے۔جو بات اسکے لیے اچھی ہے وہ تیرے لیے بری ہے۔ وہ اسکے لیے شہد ہے اور تیرے لیے زہر۔ وہ اسکے حق میں نور ہے اور تیرے حق میں آگ۔ وہ اسکے حق میں گلاب کا پھول ہے اور تیرے حق میں کانٹا۔میں سے یہ مخلوق اس لیے پیدا نہیں کی کوئی فائدہ کماؤں بلکہ وہ خود ہی اس تسبیح کی بدولت گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں ہم کسی کے ظاہر اور قول کو نہیں دیکھتے بلکہ ہم تو آدمی کی ماطن اور اصلی حالت کو دیکھتے ہیں۔میں تودل کا سوز چاہتا ہوں۔ اے موسیٰ آداب کے جاننے والے اور ہیں اور دل جلے اور ہیں۔

                                 ملت عشق از ہمہ دیں ہاجداست عشقاں را مذ ہب و ملّت خداست

عشق کا مذہب تمام دینوں سے جدا ہے۔ عا شقوں کا مذہب و ملّت صرف خدا ہے حضرت موسیٰ نے بارگاہِ خداوندی سی یہ عتاب سنا تو بے تاب ہو کر اس گڈریے کی تلاش میں سر گردان ہو گئے۔بڑی مشکلوں سے اسے ڈھونڈھا اور فرمایا بھائی مبارک ہو۔ تجھے اجازت مل گئی جسطرح چاہے اپنے خالق سے باتیں کر۔ گڈریے نے کہا اے موسیٰ اب میں اس مقام سے گزر گیا ہوں اب تو میں اپنے دل کے خون میں لتھٹراہوا ہوں اور سدرۃاالمنتہیٰ سے بھی آگے لاکھوں برس کا فاصلے طے کر چکا ہوں۔اب میرا حال بیان سے باہر ہے!

سبق:اللہ تعالیٰ باطن کو دیکھتا ہے ظاہر کو نہیں

 (انتخاب حکایات مثنوی مولانا رومؒ) 

Post a Comment

Previous Post Next Post